عمران خان تحریک انصاف کو ایک نئی پارٹی بنانے میں ناکام رہے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے نظریے میں کوئی ابہام نہ ہوتا، جس کا بیانیہ بالکل واضح ہوتا، جس کی جڑیں ایک موثر تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے عوام میں مضبوط ہوتیں اور جس کے پاس اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مربوط حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ایک باصلاحیت ٹیم ہوتی۔ کہیں ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ اس کے برعکس آج ایک طرف شیخ رشید، بابر اعوان اور عامر لیاقت جیسے لوگ اس پارٹی کے سیاسی گرو ہیں تو دوسری طرف سرمایہ داروں، وڈیروں، شوگر مافیا اور لینڈ مافیا کے نمائندوں کی بھرمار ہے۔ آپ اس پارٹی میں موجود فیصلہ سازی کے فقدان اور سیاسی ناپختگی کا اندازہ حالیہ چند واقعات سے بخوبی لگا سکتے ہیں جس میں انتخابی امیدواروں کے ناموں کا اعلان، نگراں وزیراعلیٰ کی نامزدگی پر لگنے والا تماشہ اور ایک غیر شائع شدہ کتاب پر بھونڈا ردعمل وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایک صوبے میں پانچ سال حکومت کرنے کے بعد بھی ایسا نہیں لگتا کہ تحریک انصاف نے کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہو۔ (آپ عمران خان کے BBC کو دئیے گئے حالیہ انٹرویو کو دیکھ لیں) تو جب نئی پارٹی اور نیا صوبہ نہ بن سکے تو یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کبھی نیا پاکستان بھی بن پائے گا۔
کہتے ہیں کہ سیاست ایک مضبوط اعصاب کا کھیل ہے۔ عمران خان اکثر کہا کرتے ہیں کہ جب وہ کرکٹ کھیلتے تھے تو ہمیشہ ایک مثبت سوچ اور جیت کے عزم کے ساتھ میدان میں اترتے تھے۔ لیکن سیاست میں شاید وہ اس سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہ کر سکے جس کی بطور کھلاڑی ان سے توقع تھی۔ (آپ اکثر ان کے اندر کے اضطراب کو ان کے چہرے پر نمایاں دیکھ سکتے ہیں) وہ نیلسن منڈیلا کی بات بھی کرتے ہیں لیکن شاید وہ نیلسن منڈیلا کی اس مسکراہٹ کو جو اس نے منصب حکومت پر براجمان ہونے سے صرف چند سال قبل جزیرہ رابن کی جیل میں حکومتی ڈیل کو مسترد کرتے ہوئے اپنے چہرے پر بکھیری تھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خود اعتمادی اور دور اندیشی قیادت کے چند بنیادی اوصاف میں سے ہیں جن سے شاید عمران خان محروم ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر آج شاید ہم میں موجود ہوتا اگر وہ ایک پریس کانفرنس میں اپنی زبان پر قابو رکھ سکتا اور یہ نہ کہتا کہ میں ضیاء الحق کی مونچھوں سے اپنے بوٹوں کے تسمے بناؤں گا۔ سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ کس وقت کیا بات کرنی ہے، کتنی کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ بغیر سوچے سمجھے جو دل میں آئے بولتے چلے جائیں۔
لیکن ۔۔۔لیکن مندرجہ بالا اور کالم کے پہلے حصے میں لکھے گئے تمام حقائق کے باوجود آج کئی دوسرے پاکستانیوں کی طرح میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو بہرحال حکومت کرنے کا ایک موقع ضرور دینا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمران خان کا ایک ناقد ہونے اور تحریک انصاف سے کسی بڑی تبدیلی کی امید نہ رکھنے کے باوجود میں ایسا کیوں سمجھتا ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کو ایک قومی ادارہ نہ بنایا جا سکا جیسا کہ عام طور پر جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس ناکامی کی چند بڑی وجوہات میں سے بار بار مارشل لاء کا آنا، سیاسی قیادت کی نالائقیاں، موروثی سیاست، کمزور سیاسی جماعتیں، طلبہ اور لیبر یونینز پر پابندیاں (عوام میں سیاسی شعور کی کمی) وغیرہ شامل ہیں۔ یوں ملک میں ایک طرف تو سیاسی ادارے کمزور ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف معاشرے میں عدم برداشت اور متشدد رویوں کو فروغ ملتا چلا گیا۔
آج جب پاکستان قیادت کے بحران سے دوچار ہے، تو ایسے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کو ان کی تمام تر حامیوں کے باوجود ایک امید کے طور پر دیکھتی ہے۔ اور سمجھتی ہے کہ جہاں ہم نے دوسرے لوگوں کو بار بار آزما لیا وہاں ہمیں عمران خان کو بھی ایک چانس دینا چاہیے۔ میں کسی حد تک اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ پاکستانی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا جس کا فائدہ آگے چل کر نہ صرف عمران خان بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی جماعتیں، سیاسی کارکن، سیاسی کلچر، اداروں اور عوام کو بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان کو اس کا فائدہ کیسے ہو گا؟
ایک انگریزی محاورہ ہے کہ انسان دیکھے اور سننے سے اتنا نہیں سیکھتا جتنا کہ وہ کسی کام کے خود کرنے سے سیکھتا ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے کا شوق پورا کرنے دیا جائے تاکہ وہ خود حکومت میں آ کر دیکھیں کہ پاکستان جیسے ملک کو چلانا پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کے بستر کے مترادف ہے۔ ابھی تک عملی سیاست میں ان کا تجربہ صرف باتیں کرنے، مخالفین کی خامیاں گنوانے، مایوسی پھیلانے اور جذبات کی چاند ماری کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہے۔ شاید حکومت میں آ کر وہ اپنی سوچ کو وسعت دے سکیں۔ سیاست بلوغت پا سکیں۔ مضبوط فیصلے کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر سکیں اور حقیقت میں کچھ کرکے بھی دکھا سکیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کی صورت میں پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور مجموعی سیاسی کلچر کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
اگر ہم دیکھیں تو پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست پر صرف دو جماعتوں اور چند خاندانوں کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔ جو کسی بھی طرح ایک جمہوری ملک کے لئے قابل فخر بات نہیں ہے جبکہ اس کی وجہ سے کسی حد تک عام لوگوں کا سیاسی نظام پر عدم اعتماد بڑھا ہے اور جمہوری ادارے بھی کمزور ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک میں تبدیلی چاہتی ہے۔ ایسے میں اگر تحریک انصاف اس سٹیٹس کو، کو مات دے کر ایک تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آتی ہے اور عوام کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ پاتی ہے تو یہ کامیابی بلاشبہ پاکستان کے بوسیدہ سیاسی نظام میں بہتری کی امید رکھنے والوں کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گی۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کے مابین مقابلے کا رجحان بڑھے گا اور یوں ہماری سیاسی بحث شاید الزام تراشی اور کردار کشی سے نکل کر کارکردگی اور قانون کی طرف جائے گی۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کچھ نادیدہ قوتیں جنہیں آج کل خلائی مخلوق کے نام سے پکارا جاتا ہے، بھی پس پردہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ہمیشہ سے حکومتی معاملات میں سرگرم رہی ہیں اور پھر انہی کی آشیرباد سے نہ صرف وقتاً فوقتاً کچھ موسمی انقلابی لیڈروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے بلکہ غیر پارلیمانی تحریکیں بھی جنم لیتی رہتی ہیں۔ لہٰذا ایسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کیلئے بھی ضروری ہے کہ ملک میں جمہوری ارتقاء کا عمل کسی نہ کسی صورت جاری رہے اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان UNDERSTANDING اور WORKING RELATIONSHIP مضبوط ہوں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ آج پاکستان بیرونی اور اندرونی طور پر کئی خطرات میں گھرا پڑا ہے۔ بیرونی محاذ پر ایک مضبوط اور موثر خارجہ پالیسی جبکہ اندرونی محاذ پر اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ ان حالات میں ایک ایسے شخص کا اقتدار میں آنا کہ جس کا نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ایک اثر و رسوخ ہو بلکہ ملک کے اندر بھی مقبولیت ہو تو نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی جو اس وقت ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے کیلئے بہتر ہو گا بلکہ ملک میں فیڈریشن بھی مضبوط ہو گی۔
مختصر یہ کہ اگر آنے والے الیکشن میں عمران خان اپنی تمام تر خامیوں اور غلط فیصلوں کے باوجود اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پاکستانی ریاست اور سیاست دونوں کیلئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اگر عمران خان اور ان کی ٹیم نے واقعی کرپشن سے پاک نیا پاکستان کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے حالیہ گیارہ نکاتی ایجنڈے کے (جس کے پورا ہونے کی امید لگانا بہت مشکل ہے) صرف چند نکات جس میں یکساں تعلیمی نظام کا رائج کرنا، صحت، زراعت اور انصاف کے شعبوں میں اصلاحات اور خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہیں پر عمل کر لیا تو یہ سونے پر سہاگے کے مترادف ہو گا۔ لہٰذا میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اگلے پانچ سال عمران خان کو اقتدار دینے سے ملک کا اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا کہ انہیں اقتدار نہ دینے کی صورت میں ہونے کا احتمال ہے۔ اس لیے عمران خان کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔